Sona shayari

Add To collaction

18-Jun-2022 لیکھنی کی کہانی -

اندھیری راتوں کے پنچھی

 از عائشے مغل 
قسط نمبر13

ولید ان دونوں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آیا تھا اور آتے ہی سارا مسئلہ مسٹر بخاری سے ڈسکس کیا تھا اور انہیں اس بات پر راضی کیا تھا کہ وہ سفیہ کا رشتہ لے کر خان ہاؤس جائیں اور مرتضیٰ کے بابا کو اس نکاح کے لیے راضی کریں ۔۔۔
تھینک یو انکل ۔۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کن لفظوں میں آپ کا شکریہ ادا کروں ۔۔۔مسٹر بخاری کو راضی ہوتے دیکھ کر مرتضیٰ نے ان کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔
نہیں۔۔بیٹا شکریہ کی کیا بات ہے۔۔تم بھی میرے لئے ولید جیسے ہو اور اسی کی طرح عزیز ہو۔۔۔۔انہوں نے شفیق لہجے میں کہا ۔۔۔اور 
پھر وہ دونوں مسٹر بخاری کو لیے خان ہاؤس کی طرف روانہ ہو گئے ۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔مسٹر خان ۔۔کیسے ہیں آپ؟؟مسٹر بخاری نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا ۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔مسٹر بخاری ۔۔۔الحمدللہ آپ سنائیں ؟؟انہوں نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا ۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔میں آج آپ کے پاس کسی خاص مقصد سے آیا ہوں ۔۔اور امید کرتا ہوں آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے ۔۔۔مسٹر بخاری نے مدعے پر آنا بہتر سمجھا تھا ۔۔۔
جی ضرور بولئیے ۔۔مجھے اچھا لگے گا آپ کے کام آکر۔۔۔انہوں نے معزز لہجے میں کہا ۔۔
پھر مسٹر بخاری نے شروع سے آخر تک پوری بات مسٹر خان کو بتائی اور پھر مسٹر خان نے بغیر اعتراض کے سفیہ کو بطورِ بہو قبول کر لیا ۔۔۔اسطرح سفیہ مسز مرتضیٰ خان بن کر خان ہاؤس میں آگئیں اور جلد ہی انہوں نے سب کا دل جیت لیا ۔۔۔۔
پھر کیا ہوا؟؟عینا نے تجسس سے پوچھا ۔۔اسنے دادا جان کو خاموش ہوتے دیکھ کر سوال کیا ۔۔۔
بیٹا پھر مرتضیٰ کی شادی کے تقریباً چھ مہینوں کے بعد زین اس دنیا میں آیا ۔۔اس دن ولید بہت خوش تھا اس سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی ۔۔اور تبھی میرے بیٹے کی خوشیوں کو نظر لگ گئی ۔۔ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔۔۔
اس نے زین کی پہلی برتھڈے پر اپنی ساری پراپرٹی زین کے نام کر دی۔۔اور جو حصہ تمہارے باپ کی طرف آیا تھا وہ اس کے مقابلے میں بہت کم تھا یہ سب ہوتا دیکھ مرتضیٰ کو اپنی اتنے سالوں کی محنت ضائع ہوتی نظر آئی ۔۔تمہارا باپ جانتا تھا کہ ولید اسے بزنس کے لیے ضرور پیسے دےگا ۔۔اور اس نے سوچا کہ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو وہ سارا بزنس وہ دھوکے سے اپنے نام کر لے گا پر وہ نہیں جانتا تھا کہ ولید اس سے پہلے ہی یہ سب کر لے گا ۔۔۔
اس نے بے یقینی سے اپنے باپ کی طرف دیکھا تھا اور تبھی مرتضیٰ خان کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ کہاں برداشت کر سکتے تھے اپنی عزیز ازجان بیٹی کی آنکھوں میں بے یقینی ۔۔۔
کچھ دیر کے لیے سب کچھ ساکت ہوا تھا۔۔۔
اور پھر دادا جان نے بولنا شروع کیا ۔۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁
یشفع کے نکاح میں صرف ایک دن ہی رہ گیا تھا اور کام تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔اب بھی وہ کسی کام میں مصروف تھی کہ نور نے اسے پکارا۔۔
یشفع ۔۔۔اس نے سن کر بھی ان سنا کر دیا ۔۔
میں نے سوچا مارکیٹ چلی جاتی ہوں پر یہاں تو لوگوں کے مزاج ہی نہیں مل رہے چلو چھوڑو اپنی اکلوتی دوست کے۔نکاح میں کوئی پرانا ڈریس ہی وئیر کر لوں گی۔۔۔اس نے بظاھر سنانے کے لیے ذرا اونچی آواز میں کہا ۔۔وہ جانتی تھی کہ یہ بات سن کر وہ چپ۔نہیں رہ پائے گی ۔۔۔
بس بس ذیادہ ڈرامے بازی کی ضرورت نہیں ہے ۔۔چل رہی ہوں میں تمہارے ساتھ ۔۔۔یشفع نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔وہ بے رخی دکھا کر اس مزید اذیت نہیں دے سکتی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ پہلے ہی بہت تکلیف میں ہے ۔۔
تھینک یو سو مچ۔۔یشفع میں جانتی تھی کہ تم زیادہ دیر تک مجھ سے ناراض نہیں رہ سکتی ۔۔۔
اب چلیں یا ابھی بٹرنگ باقی ہے ۔۔۔یشفع نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔
ہاں ہاں چلو اب۔۔نور نے اس کی تقليد کرتے ہوئے کہا ۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁
شادی کے کچھ عرصے بعد بھی جب مرتضیٰ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تو وہ بہت پریشان رہنے لگا تھا اور تبھی بہت منتوں کے بعد شادی کے پورے پانچ سال بعد تم اس دنیا میں آئی ۔۔
مرتضیٰ کی خوشی اس پل قابلِ دید تھی جب اس نے تمہیں اپنی گود میں پہلی مرتبہ لیا تھا۔۔۔اور پھر وقت بہت تیزی سے گزر گیا اور اسی طرح پندرہ سال گزر گئے ۔۔۔ان سالوں میں مرتضیٰ نے بہت کوشش کی ولید کا بزنس ہتھیانے کی لیکن اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکا پھر ایک دن مرتضیٰ نے ہارٹ اٹیک ہونے کا ناٹک کیا۔۔۔
کیا ہوا ڈاکٹر ؟؟؟ولیم نے ڈاکٹر کو روم سے باہر آتے دیکھ لیا تھا ۔۔
اب وہ بہتر ہیں لیکن اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ آئندہ انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔۔یہ پہلا ہارٹ اٹیک تھا اسی لئے وہ بچ گئے اگر دوبارہ ایسا ہوا تو وہ برداشت نہیں کر پائیں گے ۔۔۔ڈاکٹر انہیں بتا کر جا چکا تھا ۔۔۔مرتضیٰ ڈاکٹر کو پہلے ہی یہ سب کرنے کے لیے رشوت کا لالچ دے چکا تھا ۔۔۔
ڈاکٹر کے جانے کے بعد ولید سوچ میں پڑ گیا کہ آخر مرتضیٰ کو ایسی کونسی ٹینشن تھی کہ اس نہیں اپنا یہ حال کر لیا تھا ۔۔۔اور تبھی وہ روم میں داخل ہوا۔۔۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایسی کونسی بات تھی کہ تو نے اپنا یہ حال کر لیا اور مجھے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا ۔۔ولید نے۔مصنوعی غصے سے کہا۔۔۔
دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی ۔۔
میں کچھ پوچھ رہا ہوں مرتضیٰ ؟؟؟تو بتا رہا ہے یا میں چلا جاؤں ۔۔۔ولید نے اسے دھمکاتے ہوئے کہا ۔۔
بس یار کچھ نہیں ۔۔آج جب میں نہیں عینا کی طرف دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ اب وہ بڑی ہو رہی ہے اور ایک نا ایک دن مجھے اسے خود سے دور بھی کرنا پڑے گا ۔۔مرتضی نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا ۔۔
اور ولید کو یہ سب کہاں سمجھ آنے والی تھی اسے تو بس اس وقت اپنے دوست کے آنسو نظر آرہے تھے اور وہ یہ سب کہاں برداشت کر سکتا تھا ۔۔
تو کیوں پریشان ہوتا ہے یار رب نے اس کے لیے کچھ اچھا ہی سوچ رکھا ہو گا ۔۔۔ولید نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔۔
جانتا ہوں یار پر ناجانے کیوں دل یہ سب سوچ کر بڑا پریشان ہے اور یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہے میرے لئے ۔۔۔۔مرتضیٰ نے لوہا گرم دیکھ کر ایک اور وار کیا تھا۔۔۔۔
تو ایک کام کرتے ہیں مرتضیٰ کیوں نہ ہم اپنی دوستی کو رشتہ داری میں بدل لیں ۔۔۔ولید نے ایک اچھا مشورہ دیا تھا۔۔۔
ویسے آئیڈیا برا نہیں ہے تیرا ۔۔تجھ سے اچھا سسرال کہاں مل سکتا ہے میری بیٹی کو یار۔۔۔مرتضیٰ اپنی کامیابی پر دل ہی دل میں خوش ہوا تھا۔۔۔
تو ٹھیک ہے میں آج ہی بات کروں گا بابا سے۔۔۔اور اب ٹینشن نہیں لینی تو نے آج سے تیری بیٹی میری بیٹی ہے۔۔۔ولید کے۔لہجے میں خلوص ہی خلوص تھا۔۔
میں کیسے تیرے احسان چکاؤں گا ولید ۔۔زندگی میں ہر موڑ پر تو نے میرا ساتھ دیا ہے۔۔مرتضیٰ نے مصنوعی روہانسی لہجے میں کہا ۔۔۔
احسان کی کیا بات ہے دوست ہی دوست کے کام آتا ہے ۔۔چل اب تو آرام کر مجھے کچھ کام ہے شام میں چکر لگاؤں گا اور مٹھائی بھی ساتھ لے کر آؤں گا۔۔۔ولید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔۔
آج تو نے میری ساری مشکلیں حل کردیں سکون آگیا دل کو ۔۔۔مرتضیٰ نے مصافحے کے لیے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہا ۔۔۔
چل اللّٰہ حافظ ۔۔اپنا خیال رکھنا ۔۔اتنا کہہ کر ولید کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁
یشفع لاشاری کیا آپکو مقررہ پچاس ہزار حق مہر ۔۔۔زالان ملک کے ساتھ نکاح قبول ہے؟؟مولوی صاحب نے یشفع سے پوچھا ۔۔۔
قبول ہے۔۔۔یشفع نے نم لہجے میں جواب دیا ۔۔۔لیکن کب مولوی صاحب نے نکاح پورا کروایا اسے پتا ہی نہیں چلا۔۔وہ کچھ سن کہاں رہی تھی اس کا دماغ تو بس ایک نام پر ہی ساکت ہوچکا تھا۔۔اور وہ تھا زالان ملک اور آج پھر اس کا ماضی اس کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا اور آج وہ پھر سے ٹوٹی تھی ۔۔اسے اپنا دماغ سن ہوتا محسوس ہواتھا اور تبھی وہ کسی کی پرواہ کئے بغیر وہاں سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔

   1
0 Comments